میرے قصّے مِرے یاروں کو سُناتا کیا ہے آنکھ رکھتا ہے تو پھر آنکھ چُراتا کیا ہے
- (Asra Azal)
- Feb 20, 2016
- 1 min read

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے ِاک نظر میری طرف بھی تِرا جاتا کیا ہے
میری رُسوائی میں توُ بھی ہے برابر کا شریک میرے قصّے مِرے یاروں کو سُناتا کیا ہے
آنکھ رکھتا ہے تو پھر آنکھ چُراتا کیا ہے
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا توُ مجھ کو دُور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
ذہن کے پردوں پہ منزل کے ہیولے نہ بنا غور سے دیکھتا جا، راہ میں آتا کیا ہے
زخم دل جرم نہیں توڑبھی دے مہر سکوت جو تجھے جانتے ہیں ان سے چھپاتا کیا ہے
سفرِ شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں تِرے آنکھ رکھتا ہے تو پھر آنکھ چُراتا کیا ہے
عمر بھر اپنے گریباں سے اُلجھنے والے توُ مجھے میرے ہی سائے سے ڈراتا کیا ہے
چاندنی دیکھ کے چہرے کو چھپانے والے دھوپ میں بیٹھ کے اب بال سکھاتا کیا ہے
مر گئے پیاس کے مارے تو اُٹھا ابرِ کرم بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے
میں تیرا کچھ بھی نہیں ہُوں، مگر اِتنا تو بتا دیکھ کر مجھ کو، ترے ذہن میں آتا کیا ہے
تیرا احساس ذرا سا، تری ہستی پایاب تو سمندر کی طرح شور مچاتا کیا ہے
تجھ میں کس بل ہے تو دُنیا کو بہا کر لے جا چائے کی پیالی میں طوُفان اُٹھاتا کیا ہے
تیری آواز کا جادو نہ چلے گا اِن پر جاگنے والوں کو شہزاد جگاتا کیا ہے
شہزاد احمد
Comentarios