Hasil-e-Zindagi aur Aks-e-Zindagi
- (Asra Azal)
- Feb 19, 2016
- 8 min read

(Novel Parts --- By Different Writers)
My Favorite... Hasil-e-Zindagi aur Aks-e-Zindagi
زندگی ایک ناول کی طرح ہے، دکھ، خوشی، عشق، نفرت، رشتے، عداوتیں، آنسو، مسکراہٹ سب ساتھ ہے سب سے مشکل آزمائش پر پورا اترنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
====
کبھی کبھی ڈھیروں الفاظ کے ہوتے ہوئے بھی بولنے کو دل نہیں کرتا ....... نہ کچھ بتانے کو نہ جتانے کو
====
بات یہ نہیں کہ زندگی گزارنے کے لئے کوئی نہیں ملتا ، مل جاتا ہے ۔ ۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ جو دل مانگتا ہے ،وہ نہیں ملتا ۔
==== ﺧﻮﺍﻫﯿﺸﺎﺕ ﺟﺐ ﻣﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﻫﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﺲ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﻩ ﺟﺎﺗﮯ ﻫﯿﮟ...
===== ہوتا یہ ہے ہانی کے بعض دفعہ اپنی عقل مندی کے زعم میں ہم لوگوں کو کیٹگریز میں تقسیم کر دیتے ہیں اچھے،بُرے،کم عقل،چلاک ۔ جبکہ ہر انسان دوسرے سے اُتنا ہی مختلف ہوتا ہے جیسے اُس کی اُنگلیوں کے نشان ۔ مگر ہم کثرت ِ گماں سے باز نہیں آتے ۔ اور یہ گماں بہت دھوکہ دیتے ہیں ۔ اور جانتی ہو بعض گُمان بہت دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ ہمیں تجسس میں ایسا گراتے ہیں کہ باہر نکلنا ناممکن سا ہوجاتا ہے
====
کچه لوگ چاہت کا دکهاوا کرنے والوں کو چاہت رکهنے والوں سے زیادہ اچها سمجهتے ہیں..... ضروری تو نہی جو چاہت جتائے وہ چاہت رکهتا بهی ہو؟ اور جو چاہت رکهتا ہو وہ چاہت جتاتا بهی ہو_ یے فیصلہ ہمیں خود کو کرنا ہے کے ہم کس کا ساته چنیں .اسکا جسے ہم چاہیں یا اسکا جو ہمیں چاہے......__
=====
’’پیار میں کھایا جانے والا پہلا دھوکا ایسا ہی ہوتا ہے۔ دھوکے کے علاوہ سب کچھ لگتا ہے، دل یہ نہیں مانتا کہ ہم اتنے معمولی ہو گئے کہ کسی کا دل مٹھی میں نہیں کر سکے، اور دماغ یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ کسی کی دُنیا ہمارے علاوہ بھی کسی دوسرے وجود سے مکمل ہو سکتی ہے۔ حقیقت بہت دیر تک حقیقت نہیں آزمائش، پریشانی، غلط فہمی، بد دُعا لگتی ہے۔ بس حقیقت بن کر نظر نہیں آتی۔‘‘
=====
لوگوں کے لئے وہ باہر بہتی بارش کا پانی تھا جس نے میرے گال بھگودیئے تھے۔ اچھا ہی ہے کہ قدرت نے بارش کے پانی یا آنسوؤں میں سے کسی ایک کا رنگ جدا تخلیق نہیں کیا تھا ورنہ شاید میرے لئے جواب دینا مشکل ہوجاتا۔ کاش سبھی رونے والوں کے سروں پر کوئی بادل آکر برس جایا کرتا تو ہم میں سے بہتوں کا بھرم باقی رہ جاتا۔
=====
“جو لوگ دوسروں کے دلوں کو کانٹوں سے زخمی کرتے ہیں ان کے اپنے اندر کیکر اگے ہوئے ہوتے ہیں وہ چاہے یا نہ چاہے ان کے وجود کو کانٹا ہی بننا ہوتا ہے-وہ پھول نہیں بن سکتے”- ====
انسان کا مئسلہ یہ ہے کہ وہ جانے والی چیز کے ملال میں مبتلا رہتا ہے -آنے والی چیز کی خوشی اسے مسرور نہیں کرتی
=====
بعض دفعہ چہرے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔صرف آوازوں کی ضرورت ہوتی ہے کسی ایسی آواز کی جس میں ہمدردی ہو جو آپ کے وجود کے تمام ناسوروں کو نشتر کی طرح کاٹ پھینکے اور پھر بہت نرمی سے ہرگھاؤ کو سی دے-
==== سلسلے اس طرح سے چلتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ تھکے ہارے کبھی چپ چاپ کسی شام بے قرار کی طرح سلسلے سانس کی ڈور سے بندھے ہیں اور ہم اسی ڈور کے ہاتھوں میں ہیں پتلی کی طرح ۔۔۔۔۔۔ سلسلے نہیں تھکتے انسان تھک جاتا ہے ۔۔۔۔ ایک کہ بعد ایک لا محدود لا متناہی سلسلے
=====
جب تک انسان کو پانی نہیں ملتا، اسے یونہی لگتا ھے کہ وہ پیاس سے مر جائیگا مگر پانی کے گھونٹ بھرتے ہی وہ دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنے لگتا ھے، پھر اسے خیال بھی نہیں آتا کہ وہ پیاس سے مر بھی سکتا تھا۔۔۔۔ کوئ پیاس سے نہیں مرتا۔۔۔۔۔ مرتے تو سب اپنے وقت پہ ہی ہیں اور اسی طرح، جسطرح اللہ چاہتا ھے مگر دنیا میں اتنی چیزیں ہماری پیاس بن جاتی ہں کہ پھر ھمیں زندہ رہتے ہوئے بھی بار بار موت کے تجربے سے گزرنا پڑتا ھے۔۔۔
====
انسان اپنی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔ کبھی کمال کی بلندیوں کو جا چھوتا ہے، کبھی زوال کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے۔ ساری زندگی وہ ان ہی دونوں انتہاؤں کے درمیان سفر کرتا رہتا ہے اور جس راستے پر وہ سفر کرتا ہے، وہ شکر کا ہوتا یا نا شکری کا۔ کچھ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ زوال کی طرف جائیں یا کمال کی طرف، وہ صرف شکر کے راستے پر ہی سفر کرتے ہیں، چاہے زوال حاصل کریں یا کمال اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ان دونوں راستوں پر سفر کرتے ہیں۔ کمال کے راستے پر جاتے ہوئے شکر کے اور زوال کی طرف جاتے ہوئے نا شکری کے۔ انسان اللہ کی ان گنت مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے۔ اشرف المخلوقات ہے مگر مخلوق ہی ہے۔
وہ اپنے خالق پر کوئی حق نہیں رکھتا، صرف فرض رکھتا ہے۔ وہ زمین پر ایسے کسی ٹریک ریکارڈ کے ساتھ نہیں اتارا گیا کہ وہ اللہ سے کسی بھی چیز کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کر سکے مگر اس کے باوجود اس پر اللہ نے اپنی رحمت کا آغاز جنت سے کیا، اس پر نعمتوں کی بارش کر دی گئی اور اس کے بدلے اس سے صرف ایک چیز کا مطالبہ کیا گیا شکر کا۔ کیا محسوس کرتے ہیں آپ! اگر آپ کبھی زندگی میں کسی پر کوئی احسان کریں اور وہ شخص اس احسان کو یاد رکھنے اور آپ کا احسان مند ہونے کے بجائے آپ کو ان مواقع کی یاد دلائے، جب آپ نے اس پر احسان نہیں کیا تھا یا آپ کو یہ جتائے کہ آپ کا احسان اس کے لئے کافی نہیں تھا۔ اگر آپ اس کے لیے “یہ“ کر دیتے یا “وہ“ کر دیتے تو زیادہ خوش ہوتا۔ کیا کریں گے آپ ایسے شخص کے ساتھ؟ دوبارہ احسان کرنا تو ایک طرف، آپ تو شاید اس سے تعلق رکھنا تک پسند نہ کریں۔ ہم اللہ کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔ اس کی نعمتوں اور رحمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے ہم ان چیزوں کے نہ ملنے پر کڑھتے رہتے ہیں۔ جنہیں ہم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اللہ پھر بھی رحیم ہے، وہ ہم پر اپنی نعمتیں نازل کرتا رہتا ہے۔ ان کی تعداد میں
ہمارے اعمال کے مطابق کمی بیشی کرتا رہتا ہے مگر ان کا سلسلہ کبھی بھی مکمل طور پر منقطع نہیں کرتا۔
=====
زندگی میں کبھی نہ کبھی ہم اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جاتے ہیں وہاں صرف ہم ہوتے ہیں اور الله ہوتا ہے... کوئی ماں باپ. کوئی بہن بھائی، کوئی دوست نہیں ہوتا.... پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے پاؤں کے نیچے زمین ہے اور نہ ہی سر کے اوپر آسمان ... بس صرف ایک الله ہے جو ہمیں اس خلا میں تھامے ہوئے ہے ..... پھر پتا چلتا ہے کہ ہم زمین پر پڑی مٹی کے ڈھیر میں ایک ذرے یا درخت پر لگےہوئے ایک پتے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے ... پھر پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف "ہمیں" فرق پڑتا ہے ! کسی چیز پر کوئی اثر نہیں ہوتا.
=====
ﯾﮧ ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻓﺎﺻﻠﮧ ﺁ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﺎ ،ﯾﮧ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﺳﮍﮎ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﯾﮧ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﻃﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻭ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺟﻠﺪﯼ ﺗﮭﮏ ﺟﺎﺅ ﮔﯽ ، ﺟﺴﺖ ﻟﮕﺎﺅ ﮔﯽ ﺗﻮﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﺟﺎﺅ ﮔﯽ ، ﺍﮌﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻭ ﮔﯽ ﺗﻮ ﮨﻮﺍ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﮔﯽ " ﯾﮧ ﻓﺎﺻﻠﮧ ﺑﮯﺑﯽ ﺍﺳﭩﯿﭙﺲ ﺳﮯ ﻋﺒﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ 'ﺟﮭﻮﭨﮯ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﭼﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﻠﭧ ﮐﺮﻧﯿﭽﮯ ﺍﺗﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﻮ ﮔﯽ ﺗﻮ ﭘﺮﺍﻧﯽﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﮐﺸﺶ ﺛﻘﻞ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﻟﮯﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﻡ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﭼﮍﮬﻨﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺩﺷﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﮨﺮ ﺍﻭﭘﺮ ﭼﮍﮬﺘﮯ ﻗﺪﻡ ﭘﮧ ﺑﻠﻨﺪﯼﻣﻠﮯ ﮔﯽ . ﺳﻮ ﺑﮭﺎﮔﻨﺎ ﻣﺖ ،ﺟﺴﺖ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ .ﺑﺲ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺍﭼﮭﮯﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ.
=====
ہم نامکمل لوگ مکمل لوگوں کے ساتھ کبھی نہیں چل سکتے،
کبھی ہمارا سانس پھول جاتا ہے اور کبھی وہ ہمیں بہت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔۔
====
ﮐﭽﮫ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﮨﻤﯿﮟ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮨﯽ ﭘﮍﺗﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻭﺍﺑﺴﺘﮕﯽ ﺻﺮﻑ ﻟﻔﻆ " ﺗﻌﻠﻖ " ﮐﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﮬﻮﺗﯽ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ " ﺍﺣﺴﺎﺱ " ﮐﺎ ﻋﻨﺼﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﺗﺎ . ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻧﺒﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﮔﮭﺴﯿﭩﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ، ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺉ ﻧﺎﻡ ﺩﻭﮨﺮﺍ ﮐﺮ . ﺍﻭﺭ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﺗﻨﮯ ﻗﻮﯼ ﮬﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﮔﮭﺴﯿﭧ ﺳﮑﯿﮟ
====
ﺑﻨﺪﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﺎ- ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻣُﻨﮧ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ- ﺍﻟﻠﮧ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﮐﻨﺪﮬﺎ ﺑﺠﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﻣُﻨﮧ ﭘﮑﮍ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﻤﺖ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ- "ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺁﺅ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺗُﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﻟﻠﮧ" ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻨﺪﮦ ﺭُﺥ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﮬﺎ ﺩُﮬﻨﺪ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ- ﺟﺐ ﭨﮭﻮﮐﺮ ﺳﮯ ﻣُﻨﮧ ﮐﮯ ﺑَﻞ ﮔِﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﺐ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﻨﺴﺘﯽ ﮨﮯ- ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﮍﮪ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺟﮭﺎﮌﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺪﮦ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﭘﮧ ﺳﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﮯ ﺩﮬﺎﮌﯾﮟ ﻣﺎﺭ ﮐﮯ ﺭﻭﺗﺎ ﮨﮯ- "ﺍﻟﻠﮧ! ﺩﯾﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗُﺠﮭﮯ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﯿﺎ ﺣﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ"
ﺍﻟﻠﮧ ﺁﻧﺴﻮ ﭘﻮﻧﭽﮫ ﮐﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗُﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﯿﺎ، ﺗُﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻮﮞ، ﺗُﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺗُﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑُﮭﻮﻻ ﺗﮭﺎ- ﺗﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﻌﻨﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﺭﺗﺎ ﮐﮧ "ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺩﮬﮑﮯ ﮐﮭﺎ ﮐﮯ؟ ﺑُﻼﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺗﺠﮭﮯ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ؟ ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﻨﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ؟ ﺟﺎ ﺩﻓﻊ ﮨﻮ ﺟﺎ- ﺑﮭﺎﮒ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ، ﻧﻔﺲ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ-" ﺑﻠﮑﮧ ﻭﮦ ﭨﮭﻮﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮﮐﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ- ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺭﺣﯿﻢ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ- ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﻮ ﮨﮯ، ﻭﮨﯽ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ-
====
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ کی تہہ میں جانے اور تحقیق ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮔﺮﯾﺰ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ. کیونکہ گمان جہاں ٹوٹے وہاں انسان ٹوٹ جاتا ہے اور ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﯿﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺗﺠﺰﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺻﺪﻣﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﯿﺮﺍ ﺗﻮ ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﻠﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
====
اِختیار اور مجبوری۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کب سے سوچ رہا تھا کہ اِن دو الفاظ کا آپس میں کتنا گہرہ تعلق ہے ناں؟ دِن رات کی مانند جو ہمیشہ ایک دوسرے سے منسلک رہتے ہیں۔ ہم اگر زندگی کے کسی بھی مقام کا مشاہدہ کرلیں جہاں ہم نے اپنے اختیارات کا استعمال کیا ہو۔۔۔۔۔ وہاں اُس مقام پہ ہمارا اختیار مجبوری میں بدل دیا گیا۔ ہمارے اختیار کے استعمال میں کوئی نہ کوئی مجبوری آڑے آ گئی۔۔۔۔ ہماری زندگی ایک بہتی ندّی کی مانند ہے، جس کے بہاؤ کے ساتھ ہم بہتے جا رہے ہیں۔ اور زندگی میں اِختیارات کا استعمال یوں ہے جیسے ندّی کے پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت میں تیراکی کرتے ہوئے کنارے پہ پہنچنے کی کوشش کرنا۔ بہاؤ سے مزاحمت کرتے کرتے مجبوریوں کی موجیں ہماری سانسیں اُکھاڑنے لگتی ہیں، ہمارے حوصلے پست کر دیتی ہیں اور پھر غوطے دے دے کر جان لے لیتی ہیں۔ اِسی طرح ایک سائل اُسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ جس دَر پہ وہ دستِ سوال دراز کر رہا ہے آیا کہ وہاں سے اُس کی اُمید بر آئے گی؟ پھر بھی اُسے ایک اُمید ہوتی ہے، اُسے مان ہوتا ہے۔ کہ وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جائے گا۔ اور اِسی مان کے ساتھ سائل اپنا اِختیار استعمال کرتے ہوئے سوال کرتا ہے۔ اور وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ سامنے والا دینے پہ مختار ہے اور وہ اپنا اختیار استعمال کرکے میری طلب پوری کر دے گا۔ مگر سائل کو یہ نہیں معلوم کہ بسا اوقات مختار بھی مجبور ہوتا ہے، اُس کی مراد پوری نہیں کر پاتا اور سائل مجبور ہوکر واپس چلا جاتا ہے۔ سائل کا اپنا اختیار تھا اور مختار کا اپنا۔ مگر دونوں کے اختیارات کو مجبوری نگل گئی۔ ایک مانگنے کے باوجود خالی ہاتھ لوٹنے پہ مجبور ہوا، تو دوسرا دینے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی خالی ہاتھ لٹانے پہ مجبور ہوا۔ انسان نہ مکمل طور پہ مختار ہے اور نہ ہی مجبور۔۔۔۔۔ بس ان دنوں کے درمیان لٹکتا رہتا ہے۔ انسان کے لیئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے اختیارات اُس ذات کو سونپ دے جو کہ مجبور نہیں اور نہ اُس کی کوئی مجبوری ہے۔ جو کہ مختارِ کُل ہے۔ وہی سب کی مجبوریاں دُور کرنے پہ قدرت رکھتا ہے۔ وہ اگر چاہے تو سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دے، اور دینے والے کی مجبوریاں بھی ختم کردے۔ ایک یہی صورت ہے جو انسان کو مختار بناتی اور مجبور بھی نہیں ہونے دیتی۔
====
Continued...
Comments