ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﮞ ﺟﺴﮯ ﺗﻢ ﮨﻨﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﮌﺍ ﮔﺌﮯ
- (Asra Azal)
- Feb 9, 2016
- 7 min read

کب تلک اور جلوں آگ میں تنہائی کی زندگی اب یہی بہتر ہے بجھا دے مجھ کو
=====
جب بھی الجھا ہے سکوت شب غم سے مرا دل تیری یادوں نے طبیعت مری بہلائی ہے
====
دل سے باہر نکل آنا میری مجبوری ہے... میں تو اس شورِ قیامت میں نہیں رہ سکتا.
ویسے رہنے کو تو خوش باش ہی رہتا ہوں ظفر... سچ جو پوچھیں تو حقیقت میں نہیں رہ سکتا
======
آنکھ نے بات کی لب سے پہلے اور چاہا تجھے سب سے پہلے
اب تو حاصل کے سوا کچھ بھی نہیں ورنہ کیا حسن تھا اب سے پہلے
کون بے وجہ نمو پاتا ہے کیا مسّبب تھا سبب سے پہلے
منہ لگایا تو وہ گستاخ ہُوا ورنہ ملتا تھا ادب سے پہلے
کون سے رنگ میں شدّت تھی ظفر اُس کے چہرے پہ غضب سے پہلے
===
راہ میںپھول بچھانے سے کوئی ملتا ہے؟ بام پر دیپ جلانے سے کوئی ملتا ہے؟ ۔ روشنی زادو! بتاؤ، کوئی فریاد کریں ایسے آواز لگانے سے کوئی ملتا ہے؟ ۔ رو پڑی خود بھی ہوا پوچھ کے مجھ سے یہ سوال اس طرح اشک بہانے سے کوئی ملتا ہے؟ ۔ اُس سے ملوا دے جسے ڈھونڈا ہے بے طرح، اگر اے خدا، تیرے خزانے سے کوئی ملتا ہے ۔ جس طرح ملتے ہیں دو وقت سرِ دشتِ غروب اِس طرح میرے فسانے سے کوئی ملتا ہے ۔ کتنے نادان ہو ، کہ کہے جاتے ہو اس طرح درد سنانے سے کوئی ملتا ہے؟
=====
یاد آوں گا زمانے کو____ مثالوں کے لئے. جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لئے
=====
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے سوال سارے غلط تھے ـــ جواب کیا دیتے * خراب صدیوں کی ـ ـ بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں اب اِن بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے * ہوا کی طرح مسافر تھے ـ ـ دِلبروں کے دل اُنھیں بس ـــ اِک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے * شراب دل کی طلب تھی ـ ـ شرع کے پہرے میں ہم اتنی تنگی میں ـــ اس کو شراب کیا دیتے * مُنیرؔ ــــــ دَشت شروع سے سراب آسا تھا اس آئینے کو ـــ تمنا کی آب کیا دیتے
====
اے مرگ آ کہ میری بھی رہ جائے آبرو... رکھا ہے اُس نے سوگ عدو کی وفات کا.
=======
مجھے خبر ہے کہ سجتی ہے مجھ پہ ویرانی کچھ اس لیے بھی میں اکثر اداس رہتا ہوں
====
ہے ازل کی اس غلط بخشی پہ حیرانی مجھے عشق لافانی ملا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی فانی مجھے. وجود عشق، کامل عشق، کمال عشق حاضر ہوں، شاید محو عبادت ہوں ہے حالت رکوع, ملی سایل کو خیرات نشان کامل ہوں، علی رضی اللہ عنہ کی سخاوت ہوں. میں نے برسوں عشق نماز پڑھی تسبیحِ محبت ہاتھ لئے چلی ہجر کی میں تبلیغ کو اب تری چاہت کی آیات لئے اک آگ وہی نمرود کی ہے میں اشک ہوں اپنے ساتھ لئے مجذوب ہوا دل بنجارہ بس زخموں کی سوغات لئے دل مسجد آنکھ مصلیٰ ہے بیٹھی ہوں خالی ہاتھ لئے اے کاش کہیں سے آجائے وہ وعدوں کی خیرات لئے.
====
عُمر بھر عشق کسی طور نہ کم ھو ، دل کو ہر روز عطا نعمتِ غم ھو ، میرے کاسے کو ھے بس چار ہی سکّوں کی طلب عشق ھو ، وقت ھو ، کاغذ ھو ، قلم ھو ، حجرۂ ذات میں یا محفلِ یاراں میں رھوں فکر دنیا کی مجھے ھو بھی تو کم ھو ، جب میں خاموش رھوں ، رونقِ محفل ٹھہروں اور جب بات کروں ، بات میں دَم ھو ، لوگ چاہیں بھی تو ھم کو نہ جدا کر پائیں یوں مری ذات تری ذات میں ضم ھو ، عشق میں ڈوب کے جو کچھ بھی لکھوں کاغذ پر خود بخود لوحِ زمانہ پہ رقم ھو ، نہ ڈرا پائے مجھے تیرگیءدشتِ فراق ہر طرف روشنیءدیدۂ نم ھو ، مِیر کے صدقے مرے حرف کو درویشی ملے دور مجھ سے ھوسِ دام و درم ھو ، میرے کانوں نے سُنا ہے ترے بارے میں بہت میری آنکھوں پہ بھی تھوڑا سا کرم ہو ، جب زمیں آخری حدّت سے پگھلنے لگ جائے عشق کی چھاؤں مرے سرکو بہم ہو
=====
ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے تیرا ملنا بھی جدائی کی گھڑی ہو جیسے اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے کتنے ناداں ہیں ترے بھولنے والے کہ تجھے یاد کرنے کے لیئے عمر پڑی ہو جیسے تیرے ماتھے کی شکن پہلے بھی دیکھی تھی مگر یہ گرہ اب کے مرے دل میں پڑی ہو جیسے منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے آج دل کھول کے روئے ہیں تو یوں خوش ہیں فراز چند لمحوں کی یہ راحت بھی بڑی ہو جیسے
=====
وہ مدتوں کے بعد سر_ راہ مل گیا .ایسا لگا کے جیسے کوئی زخم چھل گیا اس کے بھی پائوں جیسے زمیں نے پکڑ لئے .اور میں بھی درختوں کی طرح جڑ سے ہل گیا
=====
اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے
دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
=====
ﺁﻭﺍﺭﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺴﻦ ﺍِﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮬﻨﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﺍﻗﺮﺍﺭِ ﻭﻓﺎ ﮐﺮﻧﺎ ، ﭘﮭﺮ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﻣُﮑﺮ ﺟﺎﻧﺎ
ﺟﺐ ﺧﻮﺍﺏ ﻧﮭﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﯿﺎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﮬﺮ ﺻُﺒﺢ ﮐﻮ ﺟﯽ ﺍﭨﮭﻨﺎ، ﮬﺮ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻣَﺮ ﺟﺎﻧﺎ
ﺷﺐ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﭨﮭﮑﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺍﮎ ﭼﮭﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ ﮐﯿﺎ ﻭﻗﺖ ﭘﮧ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﻧﺎ ، ﮐﯿﺎ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﻧﺎ
ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮬﻮ ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺑﺎﺭِ ﮔﺮﺍﮞ ﭨﮭﮩﺮﻭ ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮬﻮ ﮐﺸﺘﯽ ﺳﮯ ﺍﺗﺮ ﺟﺎﻧﺎ
ﺳُﻘﺮﺍﻁ ﮐﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﻋﯿﺎﮞ ﮬﻮﺗﺎ ﺧﻮﺩ ﺯﮬﺮ ﭘﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﺐ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﺟﺎﻧﺎ
ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺅ ﮔﮯ ﮬﻢ ﺗﻢ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﯾﮟ ﮔﮯ ﭼﺎﮬﻮ ﺗﻮ ﭨﮭﮩﺮ ﺟﺎﻧﺎ ، ﭼﺎﮬﻮ ﺗﻮ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﻧﺎ
===
یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا تمہیں جس نے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو کبھی حسن پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں جو میں بن سنور کے کہیں چلوں مرے ساتھ تم بھی چلا کرو نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو اسے اتنی گرمئ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کرو
=======
نہ قدرداں ملا کوئی زمانے میں یہ رشتہ ٹوٹ گیا، سننےاور سنانے میں سوچتا ہوں اک روز شمع سے پوچھوں گا مزہ کس میں ہے، جلنے یا جلانے میں
====
چشمِ میگوں ذرا ادھر کر دے دستِ قدرت کو بے اثر کر دے
تیز ہے آج دردِ دل ساقی تلخیء مے کو تیز تر کر دے
جوشِ وحشت ہے تشنہ کامی ابھی چاکِ دامن کو تا جگر کر دے
میری قسمت سے کھیلنے والے مجھ کوقسمت سے بے خبر کر دے
لٹ رہی ہے مری متاعِ نیاز کاش وہ اس طرف نظر کر دے
فیض تکمیلِ آرزو معلوم! ہو سکے تو یونہی بسر کر دے
====
چارہ گرِ دلِ بے تاب کہاں آتے ہیں مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں
میں تو یک مُشت اُسے سونپ دوں سب کچھ لیکن ایک مُٹھی میں میرے خواب کہاں آتے ہیں
مدتوں بعد اُسے دیکھ کے دل بھر آیا ورنہ صحراؤں میں یہ سیلاب کہاں آتے ہیں
میری بے درد نگاہوں میں اگر بھولے سے نیند آئی بھی تو اب خواب کہاں آتے ہیں
تنہا رہتا ہوں میں دن بھر بھری دنیا میں ٖقتیل دن بُرے ہوں تو پھر احباب کہاں آتے ہیں
====
ﺩﻭﺳﺖ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﺒﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻭﮨﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮨﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﺎ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﻣﺮﺍ ﺳﺨﺖ ﻧﺎﺩﻡ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺻﺒﺢ ﺩﻡ ﭼﮭﻮﮌ ﮔﯿﺎ ﻧﮑﮩﺖِ ﮔﻞ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻏﻨﭽۂ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﻣﺮﺍﺳﻢ ﺗﮭﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﮎ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﯿﺮﮮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺁﺝ ﺗﻨﮩﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮐﺲ ﮐﺎ ﮨﻮﮞ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﻣﺮﯼ ﺟﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻼ ﮨﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﮯ ﻭﮨﯽ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺳﺮِ ﺩﺍﺭ ﺑﮭﯽ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺑﮩﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻤﻦ ﮐﻮ ﺟﻠﺘﮯ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﻢ ﺗﮑﻠﻒ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺧﻼﺹ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮ ﻓﺮﺍﺯ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﻼﻧﮯ ﻭﺍﻻ
=====
ﺍﺏ ﺗﻮ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻣﺮ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﭼﯿﻦ ﻧﮧ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﮐﺪﮬﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭼﺸﻢ ﮔﮩﺮ ﺑﺎﺭ ﮐﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﺩﺭﯾﺎ ﭼﮍﮪ ﮐﮯ ﮔﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻻﺋﮯ ﺟﻮ ﻣﺴﺖ ﮨﯿﮟ ﺗﺮﺑﺖ ﭘﮧ ﮔﻼﺑﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻭ ﭘﮭﻮﻝ ﺗﻮ ﺩﮬﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺑﭽﯿﮟ ﮔﮯ ﺭﮦ ﮔﺰﺭ ﯾﺎﺭ ﺗﻠﮏ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﮨﻢ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﺐ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺩﻭ ﻋﺎﻟﻢ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺁﮒ ﺩﻭﺯﺥ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﺟﺐ ﯾﮧ ﻋﺎﺻﯽ ﻋﺮﻕ ﺷﺮﻡ ﺳﮯ ﺗﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﻮ ﮐﺮﯾﮟ ﺧﻮﻥ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﮔﺎ ﺧﺪﺍ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﮑﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺭﺥِ ﺭﻭﺷﻦ ﺳﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﭧ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺗﻢ ﻣﮩﺮ ﻭ ﻣﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﯾﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺍﺗﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺷﻌﻠﮧ ﺁﮦ ﮐﻮ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﻤﮑﺎﺅﮞ ﭘﺮ ﯾﮩﯽ ﮈﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﮈﺭ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺫﻭﻕ ﺟﻮ ﻣﺪﺭﺳﮧ ﮐﮯ ﺑﮕﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﻣُﻼ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻣﮧ ﺧﺎﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺁﺅ ﺳﻨﻮﺭ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
=======
ﻭﮦ ﺟﻮ ﮔﯿﺖ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺳﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﺎ ﺭﯾﺎﺽ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﮞ ﺟﺴﮯ ﺗﻢ ﮨﻨﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﮌﺍ ﮔﺌﮯ
====
تیرے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھاۓ کوئی ایسا کر بہانا میری آس ٹوٹ جاۓ ! !
====
تیرے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھاۓ کوئی ایسا کر بہانا میری آس ٹوٹ جاۓ ! !
=====
چشمِ نم ـ ـ ـ ـ ـ دلِ مضطرب غمِ آرزو ـ ـ ـ ـ غمِ جستجو لیے پھر رہے ہیں نگر نگر کسی مہرباں کی امانتیں ! ! !
====
ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی دیوار پر لکھی ہوئی تحریر جو بھی تھی
ہر فرد لاجواب تھا، ہر نقش بے مثال مِل جُل کے اپنی قوم کی تصویر جو بھی تھی
جو سامنے ہے، سب ہے یہ،اپنے کیے کا پھل تقدیر کی تو چھوڑئیے تقدیر جو بھی تھی
آیا اور اک نگاہ میں برباد کر گیا ہم اہلِ انتظار کی جاگیر جو بھی تھی
قدریں جو اپنا مان تھیں، نیلام ہو گئیں ملبے کے مول بک گئی تعمیر جو بھی تھی
Comments