top of page

آخری خواہش

  • (Asra Azal)
  • Feb 7, 2016
  • 3 min read

دل سےنکال دیجیے احساس آرزو... مر جائیےکسی کی تمنا نہ کیجیے

====

میں تیری بد دعاؤں سے مر جاؤں یہی ہے آخری خواہش میری !!!

=== وار اِس قدر شدید کہ دشمن ہی کر سکے چہرا مگر ضرور کسی آشنا کا تھا

====

کوئی موسم تو ایسا ہو کہ دل کے سب زخم بھر جائیں

====

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پر ستم نکلے جو وہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے

====

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال سنائیں کیا کوئی مہر نہیں کوئی قَہر نہیں، پھر سچا شعر سنائیں کیا

اک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی جب جسم ہی سارا جلتا ہو، پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا

====

دلوں کا حال تو یہ ہے کہ ربط ہے نہ گریز محبتیں تو گئی تھیں عداوتیں بھی گئیں __!

===

اک شک سا ھوا تھا کے پکارا ھے کسی نے پھر چلتارھا چلتا رھا چلتا رھا میں. . . . .

====

روح کو جسم کے پوشاک میں رکھا گیا تھا میں بہت خوش تھا کہ خاک میں رکھا گیا تھا میں نے اس وقت بھی خالق سے شکایت کی تھی عشق جب خانہ ءادراک میں رکھا گیا تھ

=====

عقل نے جو بھی مرتبے بخشے!!! عشق کی راہ میں گنواۓ ہیں!!!

====

غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں تو نے مجھ کو کھو دیا، میں نے تجھے کھویا نہیں نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لب گویا نہیں

=====

دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے ورنہ کہیں تقدیر تماشا نہ بنا دے اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کہ نہ دیکھو تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنا دے میں ڈھونڈ رہا ہوں میری وہ شمع کہاں ہے جو بزم کی ہر چیز کو دیوانہ بنا دے آخر کوئی صورت بھی تو ہو خانہء دل کی کعبہ نہیں بنتاہے تو بت خانہ بنا دے بہزاد ہر ایک جام پہ ایک سجدہء مستی ہر ذرے کو سنگِ درِ جاناں نہ بنا دے

====

اس جسم کے زنداں میں اک عمر سے قیدی ہیں اڑ جائیں گے ہم آخر اک روز رہا ہو کر ...!

====

اب ذرا چاہئے تنہائ میں یکسوئی مجھے اب کوئی چاہنے والا بھی نہیں چاہئے ہے

====

ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻤﺮ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺳﻤﭧ ﺳﮑﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﺗﮭﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺟﺘﻨﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺗﮭﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺍﮎ ﻧﮕﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﺌﮯ

====

جسے خوُد سے ہی نہیں فرُصتیں، جسے دھیان اپنے جمال کا اُسے کیا خبر مرے شوق کی، اُسے کیا پتا مرے حال کا

مرے کوچہ گرد نے لوٹ کر مرے دل پہ اشک گرا دیا اُسے ایک پل نے مٹا دیا ، جو حساب تھا مہ و سال کا

تجھے شوقِ دیدِ غروب ہے،مری آنکھ دیکھ بھری ہوئی کہیں تیرے ہجر کی تیرگی، کہیں رنگ میرے ملال کا

شبِ انتظار وہ مہ لقا، جونہی میرے سامنے آ گیا مجھے کوئی ہوش نہیں رہا، نہ جواب کا نہ سوال کا

کبھی حال ہجر کہا نہیں، وہ ملا تو لفظ ملا نہیں کہیں گفتگوُ ہی میں کھو گیا، جو معاملہ تھا وصال کا

جسے وقت جانِ غزل کہے،جو چلے تو شام کھڑی رہے وہی میرے لفظ کا رنگ ہے، وہی روپ میرے خیال کا

=====


 
 
 

Comments


Featured Review
Tag Cloud

© 2015 : Pearl of Wisdom

  • Facebook Social Icon
  • Twitter Social Icon
  • LinkedIn Social Icon
bottom of page