عاجزی چاہیے، آگہی چاہیے، دردِ دل چاہیے، چشمِ تر چاہیے
- silentmoments29
- Feb 6, 2016
- 2 min read


خود سے غافل بہت دیر ہم رہ چکے اب ہمیں کچھ ہماری خبر چاہیے چشمِ رمز آشنا، قلبِ عقدہ کشا، اک ذرا سی توجہ اِدھر چاہیے
مستقل دل میں موجود ہے اک چبھن، اب نہ وہ خوش دلی ہے نہ ویسا سخن مضطرب ہے طبیعت بہت ان دنوں، کچھ علاج اس کا اے چارہ گر چاہیے
چاک عہدِ تمنا کے سب سل گئے، ہجر کے ساز سے دل کے سُر مل گئے بس یہی ٹھیک ہے کاتبِ زندگی، عمر باقی اسی طرز پر چاہیے
ذوقِ تخلیق کی آبیاری کہاں، ہم کہاں اور یہ ذمہ داری کہاں حسبِ توفیق محوِ سخن ہیں مگر، یہ نہیں جانتے کیا ہنر چاہیے
ہر کسی کو گلہ بیش و کم ہے یہی، آدمی کا ہمیشہ سے غم ہے یہی جو ملا اُس کی ایسی ضرورت نہ تھی، جو نہیں مل سکا وہ مگر چاہیے
رنگ و خوشبو کا سیلاب کس کام کا، ایک لمحہ تو ہے عمر کے نام کا یہ نظارا بہ قدرِ نظر چاہیے، یہ مہک بس ہمیں سانس بھر چاہیے
نخلِ دل کی ہر اک شاخ بے جان ہے، تازگی کا مگر پھر بھی امکان ہے زندگی کی ذرا سی رمق چاہیے، اب نفس کا یہاں سے گزر چاہیے
کام کچھ خاص ایسا یہاں پر نہیں، قرض بھی اب کوئی جسم و جاں پر نہیں یعنی اپنی طرف واپسی کے لیے، اب ہمیں صرف اذنِ سفر چاہیے
لفظ کافی نہیں ہیں سفر کے لیے، اس دیارِ سخن میں گزر کے لیے عاجزی چاہیے، آگہی چاہیے، دردِ دل چاہیے، چشمِ تر چاہیے
آپ کی در بہ در جبہ سائی کہاں، میرؔ کی خاکِ پا تک رسائی کہاں آپ کو خلعتِ سیم و زر چاہیے، وہ بھی کچھ وقت سے پیشتر چاہیے
Comments