top of page

نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن

  • (Asra Azal)
  • Feb 3, 2016
  • 1 min read

نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن بجھی ہیں درد کی شمعیں کہ سو گیا ہے بدن سُلگ رہی ہیں نہ جانے کس آنچ سے آنکھیں نہ آنسوؤں کی طلب ہے نہ رتجگوں کی جلن دلِ فریب زدہ! دعوتِ نظر پہ نہ جا یہ آج کے قد و گیسو ہیں کل کہ دار و رسن غریبِ شہر کسی سایہءشجر میں نہ بیٹھ کہ اپنی چھاؤں میں خود جل رہے ہیں سرو و سمن بہارِ قرب سے پہلے اُجاڑ دیتی ہیں جدائیوں کی ہوائیں محبتوں کے چمن وہ ایک رات گزر بھی گئی مگر اب تک وصالِ یار کی لذت سے ٹوٹتا ہے بدن پھر آج شب ترے قدموں کی چاپ کے ہمراہ سنائی دی ہے دلِ نامراد کی دھڑکن یہ ظلم دیکھ کہ تُو جانِ شاعری ہے مگر مری غزل میں ترا نام بھی ہے جُرمِ سخن امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے کبھی بہ حیلئہ مذہب کبھی بنامِ وطن ہوائے دہر سے دل کا چراغ کیا بجھتا مگر فراز سلامت ہے یار کا دامن


 
 
 

Comments


Featured Review
Tag Cloud

© 2015 : Pearl of Wisdom

  • Facebook Social Icon
  • Twitter Social Icon
  • LinkedIn Social Icon
bottom of page