top of page

ایک تمہارا غم اپنا کر، کتنے غم اپنائے ہیں

  • (Asra Azal)
  • Jan 25, 2016
  • 1 min read

ہم نے سُنا تھا صحنِ چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں ہم بھی گئے تھے جی بہلانے، اشک بہا کر آئے ہیں

پُھول کھِلے تو دل مُرجھائے، شمع جلے تو جان جلے ایک تمہارا غم اپنا کر، کتنے غم اپنائے ہیں

ایک سُلگتی یاد، چمکتا درد، فروزاں تنہائی پوچھو نہ اس کے شہر سے ہم کیا کیا سوغاتیں لائے ہیں

سوئے ہوئے جو درد تھے دل میں*، آنسو بن کر بہہ نکلے رات ستاروں کی چھاؤں میں یاد وہ کیا کیا آئے ہیں

آج بھی سُورج ڈُوب گیا، بے نُور اُفق کے ساگر میں آج بھی پُھول چمن میں تُجھ کو بِن دیکھے مُرجھائے ہیں

ایک قیامت کا سنّاٹا، ایک بلا کی تاریکی ان گلیوں سے دُور، نہ ہنستا چاند، نہ روشن سائے ہیں

پیار کی بولی بول نہ جالبؔ! اس بستی کے لوگوں سے ہم نے سُکھ کی کلیاں کھو کر، دُکھ کے کانٹے پائے ہیں

حبیب جالبؔ


 
 
 

Comments


Featured Review
Tag Cloud

© 2015 : Pearl of Wisdom

  • Facebook Social Icon
  • Twitter Social Icon
  • LinkedIn Social Icon
bottom of page